پہلی رومانوی محبت Pehli Romanvi Muhabbat

پہلی رومانوی محبت Pehli Romanvi Muhabbat


"پہلی رومانوی محبت'' Pehli Romanvi Muhabbat جسے خاندانی بندشیں اور خونی رشتے ایسے موڑ پر لاکھڑا کردیتے ہیں. نعیمہ زندان دلان لاہور شہر کی اک زندہ دل پڑھی لکھی، گوری چٹی، خوبرو، رومان پرور دوشیزہ رشتہ میں میری کزن تھی۔ نسیمہ کے ابا اختردرانی کی زرعی زمینیں اور گھر دیہات میں ہماری زمینوں اور گھر کے اڑوس پڑوس میں تھا۔ اختر درانی سکول ملازمت اور بچوں کی تعلیم و تربیت سلسلہ میں لاہور مقیم تھے۔صرف گرمیوں کی دو ماہ کی چھٹیاں گزارنے نعیمہ لاہور سے گاؤں آتی تو میرے خرمنِ دل پہ بھی بہار آجاتی۔نعیمہ لاہور شہر کی پڑھی لکھی اور گاؤں میں اس کی ہم مزاج ناری کوئی نہ تھی۔نعیمہ یہاں موسم گرما کی طویل تعطیلات گزارتی تو کیسے؟ ستم بالائے ستم گھر کا گھٹا گھٹا ماحول اور سخت پردہ۔ وہ تو میں نابالغ اور چھوٹا ہونے سبب  نعیمہ اپنے دیہات کے گھرمیں آتی تو میں بھی ان کے ہاں آجالیتا تھا۔ قسمت ہم دونوں کو ہر سال گرما کی تعطیلات کے دو ماہ کے لیے ملاتی، مانوس ہونے سے پہلے ہی جدا ہو جاتی۔ ہماری ملاقاتیں، باتیں ہمارے دل و ذہن پہ کوئی واضح نقش بنائے بنا ختم ہوتی رہیں۔یہ تعین کرنا بہت مشکل ہے کہ ہماری رومانوی حسن نے کب  اور کیسے اک دوجے کو رومانس کے لیے منتخب کر لیا تھا۔ اگر ایسا کچھ تھا تو بھی نہایت غیر محسوس انداز میں لاشعوری ہی۔ میں نعیمہ سے دو تین سال چھوٹا عمراور ماحول کے اس حصہ میں تھا جہاں حسن کا معیار گورا رنگ ہی ہوتا ہے  اور یہ نعیمہ میں بدرجہ اتم موجود، دیگر جسمانی خوبیوں طرف بچپن میں دھیان کا کیا کام؟احسن عادات، بات چیت کرنے، پہننے کھانے پینے غرضیکہ ہر بات میں رکھ رکھاؤ، رومانوی شاعر باپ کی صاحبزادی اور نامور شاعر ازہردرانی کی بڑی بہن ہونے کے ناطہ سے اس کا اپنا شعری ذوق شوق درجہ کمال کا، فطری اور وراثتی۔ 

میں پینڈو پنڈ میں رہ کے بھی روایتی پینڈو کی بجائے مہذب شہری نظرآتا تھا۔ صاف رنگت کشادہ پیشانی، سرمئی شربتی آنکھیں، گول مٹول چہرہ مہرہ، ذہین و فطین، شوخ و شریر، حاضر جواب، خاندان کی آنکھوں کا تارا، ہر کسی کو پیارا تھا۔ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کے مصداق بچپن ہی سے نصابی غیر نصابی سرگرمیوں میں شاندار ریکارڈ پہ ریکارڈ بناتا درخشاں مستقبل کی طرف گامزن تھا۔  دیہاتی ہونے کے باوجود ادب آداب شہری، بات چیت میں معصومانہ شوخی شرارت، ذہانت اور موروثی رومانیت کسی بھی دوشیزہ کے من میں محبت کا دیپ جلانے کے لیے کافی تھی۔ نعیمہ گھر کے کٹر مذہبی، گھٹے گھٹے ماحول میں انگریزی، مغربی پڑھائی اور ورثہ میں پائی شعری رومانیت، ذوق کو بھڑکنے  کے لیے ذرا سی چنگاری چاہیے تھی۔عورت اپنی فطری شرم و حیاسے مجبور محبت ہو جانے پہ بھی اقرار محبت کر نہیں پاتی۔ اقرار محبت میں پہل ہمیشہ مرد کی جانب سے ہی ہوا کرتی ہے۔اس حقیقت کے اقرار میں مجھے کوئی عار نہ ہے کہ اک حادثہ واقعہ نے میری،اک مرد، نابالغ ہی سہی کی طرف سے بے خیالی میں اقرار محبت نے نعیمہ کے من میں میری محبت کی جوت جگا، اس کے لاشعور میں رچی بسی رومانیت کوشعوری روپ دیتے، اپنا رومانوی محبوب و میت مان لیا تھا۔ نعیمہ کو مجھ سے محبت ہو گئی تھی، حقیقی سچی رومانوی محبت۔ کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ محبت اک اتفاقیہ حادثہ، اس اتفاقی واقعہ حادثہ سے ہی نعیمہ کے من میں میری محبت کے دیپ جل اٹھے تھے۔ ہوا کچھ یوں: 

ریڈیو چینل پہ نشر ہو رہے رومانوی گانے غزلیں سنتے سنتے اپنا ہوم ورک اور پڑھائی کرنا میری عادت تھی۔ جو گانا غزل نظم پسند آتی جلدی سے لکھ لیتا تھا۔ 

        ”مہرباں لکھوں، حسینہ لکھوں یا دلربا لکھوں 

        حیران ہوں کہ آپ کو اس خط میں کیا لکھوں 

        یہ میرا پریم پتر پڑھ کر تم ناراض نہ ہونا  

        کہ تم میری زندگی ہو، کہ میری بندگی ہو۔۔۔“       

محمدرفیع کی شوخ آواز میں یہ گانا مجھے پسند کیا آیا؟ جلدی سے لکھ، بے خیالی میں اپنے پاس پڑی اک کتاب میں رکھ لیا۔ یہ کتاب میں سکول لائبریری سے پڑھنے کے لیے لایا تھا۔ نعیمہ نے پڑھنے کے لیے کوئی کتاب منگوائی تو میں نے یہی کتاب اسے بجھوا دی مگر غلطی سے کاغذ کا وہ ٹکڑا جس پہ یہ گانا لکھا تھا  نکالنا یاد نہ رہا۔ کتاب میں رکھا،میرے ہاتھ کا لکھا گانا، نعیمہ اپنے نام میرا پیغام محبت سمجھ بیٹھی۔فرط مسرت سے اسے چومتی، کبھی آنکھوں، کبھی دل سے لگاتی گنگناتی رہی:

        ”مجھے آرزو تھی جس کی وہ پیام آگیا ہے

        میرے دل کی دھڑکنوں میں تیرا نام آگیا ہے

        یہ کہاں نصیب میرے کہ تو آپ چل کے آتا

        کوئی جذبہ محبت میرے کام آگیا ہے۔۔۔“       

اس نے جلدی سے یہ غزل کاغذ پہ لکھ، اپنی دانست مطابق میرے پیغام محبت کے جواب میں اپنی نامہ برخادمہ خاص کے ذریعہ فوراً مجھے بجھوا دی۔ خادمہ نے ہی کتاب میں رکھی، کاغذ پہ لکھی یہ غزل ملنے پہ نعیمہ کی مسرت کیفیت سے مجھے آگاہ  کیا تھا۔ 

”پگلی کہیں کی!“ میں نعیمہ سے دو تین سال چھوٹا عملی رومانس اور لڑکا لڑکی کے فرق سے نا آشنا، ابھی بچپن کی حدود سے نہ نکلا، نعیمہ کو باجی باجی کہتا اور دل و جاں سے بہن کا سا پیار کرتا تھا،رومانوی محبت کیسے کرپاتا؟ گو انجانے میں نعیمہ کے من میں اپنی رومانوی محبت کی چنگاری سلگا، بھڑکا چکا تھا لیکن اس کی تپش سے ابھی میں ناآشنا، نعیمہ کو بے ساختہ پگلی کہہ اٹھا تھا۔ میرے لبوں سے نکلے الفاظ خادمہ خاص نے نعیمہ کو جا سنائے۔ 

        وہ آئیں روبرو، ہم داستان اپنی سنائیں گے 

        کچھ اپنا دل جلائیں گے کچھ ان کو آزمائیں گے

میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا بمشکل بارہ سال کا ہوں گا کہ نعیمہ گرمی کی چھٹیاں گزارنے حسب معمول گاؤں آئی۔ یہاں ان دنوں نعیمہ کے چچا کی شادی کی تیاریاں اپنے عروج پہ تھیں۔نعیمہ مارکیٹ میں نئے نئے متعارف ہوئے مصنوعی ریشمی کپڑے سے سلا منفرد خوبصورت سوٹ، شادی میں زیب تن کرنے کے لیے بطور خاص لاہور سے لائی تھی۔ اپنے سوٹ کے منفرد کپڑے سے تھوڑا سا کپڑا بچا، اس نے بطور خاص میرے لیے اپنے ہاتھوں  اک رومال بنایا اور اپنی محبت کے اظہار میں اس پہ اپنے اور میرے نام کا پہلا پہلا حرف اپنے نازک ہاتھوں سے کڑھائی کرتے  مجھے اپنے دلدار پیار کو تحفہ میں خادمہ خاص کے ذریعے بجھوا دیا۔ یہ وہ وقت تھا کہ میں کسی دوشیزہ کی رومانوی محبت سے ہنوز شعوری ناآشنا، جنسی تعلق تو میری سوچ سے بھی ماوار تھا۔میرے وہم و گماں میں نہ تھا کہ صنف نازک کی قربت کوئی معیوب و معتوب شئے ہے۔ آج کے متعفن دور کے برعکس وہ دور بھی شرم و حیا، شرافت و پاکیزگی اور معصومیت کا تھا۔ میں بارہ برس کی عمر میں بھی مرد عورت کے فرق اور ان کے مابین رومانوی محبت کے تصور سے شعوری ناآشنا اس صلہ میں ملنے والے تحفے تحائف چھپا کے رکھنے کے تخیل سے قطعاً نابلد تھا۔ نعیمہ کے چچا کی بارات پہ میں نے شوق خود نمائی میں یہ رومال اپنی شرٹ کی سامنے والی جیب میں کچھ اس طرح اڑس لیا کہ نعیمہ اور اپنے نام کے پہلے حرف اور ان کے درمیان بنا دل صاف نظر آئے۔نعیمہ کے سوٹ سے بنا، تحفہ میں ملا رومال میں اپنی شرٹ کے سامنے والی جیب میں اور اپنے دونوں ہاتھ پتلون کی جیب میں ڈالے، جینٹل مین بنا شوق خود نمائی میں اکڑ اکڑ کے چل رہا تھا۔ بارات ابھی روانہ ہونے کو تھی کہ نعیمہ کی پھوپھو سلمہ کی نظر مجھ پہ پڑی۔ اپنی بھتیجی کے زیب تن کیے کپڑے سے بنا ہمارے ناموں کے حروف کے درمیان دل کڑھائی کیا دیکھ شرم و ندامت سے پانی پانی اور غیرت و حمیت کی ماری جل بھن اٹھی۔ سخت پردوں میں لگا نقاب انہیں ہضم نہ ہو پایا تھا۔ خیر سے پھوپھو سلمہ کیدو چچا کی طرح چالیس برس کی عمر میں بھی ازلی کنواری تھیں۔سر زمین جھنگ ہی کی رومانوی داستان ہیر رانجھا کے ولن کیدو چاچا کا کردار اسی سرزمین کی پھوپھو سلمی نے سنبھال لیا۔ 

”نیاز بیٹے! بہت خوبصورت رومال ہے۔ یہ تمہیں کس نے دیا؟“ نعیمہ کی پھوپھو سلمی نے کیدو چاچا بن، مجھے بہلا پھسلا، مجھ سے اقرار محبت لینا چاہا۔

”باجی نعیمہ نے۔“کمال معصومیت سے بے ساختہ، برملا میرا جواب تھا۔ میرے نزدیک تحفے تحائف لینا دینا قابل اعتراض نہ تھا سو سچ سچ کہہ دیا۔ اسے اقبال جرم و گناہ گردانتے سرسری سماعت کے بعد پھوپھو نے آئندہ نعیمہ سے نہ ملنے کی مجھے سزا سنا دی۔میں معصوم بچہ سمجھ ہی نہ پایا کہ باجی سے تحفہ میں رومال لینا، دینا اتنا بڑا گناہ کیونکر کیسے ہوا؟ کہ اس کی اتنی بڑی سزاسنا دی گئی۔ حیرت میں ڈوبا میرا منہ کھلے کا کھلا دیکھتا ہی رہ گیا۔ میری حیرت اور غم و غصہ کی اس وقت انتہا نہ رہی جب مجھے معلوم ہوا کہ اسی ناکردہ جرم و گناہ کی سزا میں پھوپھو نے نعیمہ کی شدید پٹائی بھی کی۔ آخر اس کا جرم ہی کیا ہے؟ رشتہ کا بہن بھائی کا تحفے میں رومال لینا دینا ہی نا! یہ اتنا بڑا جرم و گناہ کیونکر ہوا؟ میں ناداں جتنا سوچتا، اتنا ہی الجھتا جاتا، کچھ سمجھ ہی نہ پاتا تھا۔ اگلی صبح نعیمہ کی خادمہ خاص چوری چھپے میرے لیے  نعیمہ کا محبت نامہ لائی۔ یہ محبت نامہ کم میری سزنش اور شکوہ شکایت کا خط زیادہ تھا۔ 

”نواز چاند!تم ہمیشہ بدھو کے بدھو ہی رہو گے۔ میرے دیئے رومال کی سرعام نمائش کیوں کی؟ ایسا کیا ہی تھا تو پھوپھو سے کیوں کہا کہ یہ میں نے تمہیں تحفہ میں دیا ہے۔ تم میرے سچے پیار کو کب سمجھ پاؤ گے؟ اف  خدایا! تو میرے ناداں دلدار کو بھی سمجھدار بنا، میرے پیار کی قدر کرنا سکھا دے۔ آمین۔“ 

”بدھو میں نہیں باجی! بدھو ہو گی تم۔ اگر میں یہ رومال کسی کو دکھا اپنی شان نہیں بنا سکتا تو اس کا کیا فائدہ؟ رکھو یہ سوغات اپنے پاس، ہم اس کے بنا ہی بھلے۔ ہم نے یہ مانگا تھوڑا تھا۔“ غم و غصہ سے محبت نامہ پھاڑتے، تحفہ میں ملا رومال خادمہ کے ہاتھ واپس بجھوا دیا۔ اک تو مہا رسوائی کے ساتھ شدید پٹائی، نعیمہ کا رواں رواں درد کر رہا تھا۔ ستم بالائے ستم جس کی خاطر پٹی تھی اس نے عجب بدتمیزی اور شان بے نیازی سے اس کا محبت نامہ ہی پھاڑ ڈالا تھا۔ محبت نامہ کیا پھٹا، اس کا دل ہی پھٹ کے رہ گیا۔ اپنی پٹائی کا درد وہ بخوشی سہہ گئی تھی پر اپنے محبوب کی بے نیازی، بے مروتی، بے وفائی، برداشت نہ ہوپائی۔

”خدایا! میرے دل کی لگی میرے ناداں محبوب کو بھی لگا دے۔ اسے بھی جلد جواں اور میرے پیار کا قدرداں و نگہباں بنا دے۔  “ شدت درد سے چلاتی، اپنے خدا کے حضور گڑگڑاتی  دعا پہ دعا کرتی رہی۔

        ”غم دل کو ان آنکھوں  سے چھلک جانا بھی آتا ہے

        تڑپنا بھی ہمیں آتا ہے، تڑپانا بھی آتا ہے۔۔۔۔۔“   

میری بدتمیزی کے جواب میں نعیمہ نے یہ لکھ مجھے بجھوا دیا۔ اپنے خدا پہ بلا کے اعتماد کی طرح اسے اپنے پاکیزہ عشق و محبت پہ بھی بلا کا یقین و اعتماد تھا۔ نعیمہ بار بار انہی دنوں نئی نئی ریلیز ہوئی پہلی پاکستانی رنگین فلم ”نائلہ“کا یہ نغمہ گنگناتی، اپنی ہمت حوصلہ بڑھاتی، میرے دل میں اپنی محبت کی جوت جگاتی رہی۔ میں اس کا ناداں محبوب ہنوز اس کی تڑپ سے آشنا چھوٹا  ہی اس قدر تھا کہ اس کی رومانوی محبت سمجھ ہی نہ پاتا تھا۔اپنے خدا پہ یقین کی طرح اسے یقین تھا کہ اس کی یہی تڑپ اور کسک اک نہ اک روز اس کا ناداں محبوب بھی اپنے من میں محسوس کرتے، تڑپ اٹھے گا  اور کچے دھاگے کی طرح ٹوٹ اس کی جھولی میں آگرے گا۔ اسی گماں و یقین محکم سہارے نعیمہ اک اک دن گن گن کے گزار رہی تھی۔

رومانوی ناول اور رسالے پڑھنے کی رسیا نعیمہ چند اک ناول اور ”آداب عرض“ جیسے سچی رومانوی داستانوں کے رسالے بطورخاص لاہور سے لاتی میرے من میں اپنی محبت کی جوت جگانے کے لیے بجھواتی رہی۔ میں اک ادھ کہانی پڑھ اسے واپس بجھوا دیتا تھا کیونکہ میں عمر کے اس حصہ میں تھا جہاں ان رومانوی داستانوں میں میری دلچسپی ہنوز پختہ ہو نہ پائی تھی۔یوں نعیمہ کی میرے من میں اپنی محبت کی جوت جگانے کی ہر کاوش بے اثر رہی۔یک طرفہ محبت کی ماری نعیمہ بیچاری مجھے اپنے بے نیاز محبوب سے ملنے کی بہتیری کوشش کرتی، قفس مانند اپنے گھر کی اونچی دیواروں سے ٹکراتی، محبت میں پھڑ پھڑاتی پر انہیں توڑ نہ پاتی تھی۔ ان پابندیوں کا لاشعوری دکھ تو مجھے بھی بہت، دل میرا بھی ملنے کو ترستا لیکن اپنے بڑوں کے فیصلے کے خلاف بغاوت کرتے چوری چھپے سخت پابندیاں توڑ،ملاقات کے لیے کوئی عملی قدم اٹھا نہ پاتا چھٹیاں ختم ہوتے ہی اسے لاہور لوٹ جانا تھا  سو وہ دل شکستہ اپنے ناداں محبوب نواز سے ملے بنا لاہور اپنے گھر لوٹ گئی۔ سخت پابندیاں  لگ چکی تھیں۔ نعیمہ کی محبت  درد محبت اور غم فراق سے یکسر نا آشنا میں نواز اپنی تعلیم کی طرف متوجہ شاندار تعلیمی ریکارڈ پہ ریکارڈ بناتا، مڈل سٹینڈرڈ کے امتحان میں ریجن بھر میں اعلیٰ پوزیشن لے، خصوصی وظیفہ جیت، نہم جماعت کے لیے قریبی قصبےکے ہائی سکول میں داخلہ لے، وہیں سکول ہاسٹل رہنے لگا۔ نعیمہ کے گماں مطابق تڑپنا تو کیا، مجھے اس کی کچھ خاص یاد تک نہ آئی۔ اک سال اسی طرح بیت گیا، موسم گرما پھر آیا تو نعیمہ فیملی کا چھٹیاں گزارنے اپنے گاؤں آنے کی آس امید بندھی  لیکن شومئی قسمت نعیمہ اس بار اپنے گاؤں نہ آپائی تھی۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں گاؤں آنا اس کا معمول تھا۔ اپنے معمول سے ہٹ کے ہونے کی وجہ سے یا کچھ اور  بہرطور مجھے اس کی یاد آتی تڑپاتی رہی۔ اس کی کمی مجھے بھی شدت سے محسوس تو ہوئی لیکن کمی کے اس احسا س کو غم فراق اور یاد کو محبت کا نام دیا جانا ابھی دور بہت دور تھا۔ 

اس سال گرمیوں کی چھٹیوں میں اس کے گاؤں نہ آنے کی وجہ سخت گیر مذہبی گھرانے کا یہ خوف ہو شاید کہ ان کے نونہال چوری چھپے ملتے، اپنا دل نہال نہ کرتے رہیں۔اپنے معصوم بچوں کی پروان چڑھتی پاکیزہ محبت سے ہی پریشان و نالاں عجب افغان سورما تھے۔ ان کی ملاقات پہ پہرے تو بٹھائے ہی تھے اب وہ اسے اپنے آبائی گاؤں ساتھ نہ لائے۔ میں سمجھ ہی نہ پاتا تھا کہ کسی ناری کا اپنے معصوم کزن کو تحفہ میں رومال دینا، افغان گھرانے میں اتنا بڑا جرم و گناہ کیونکر اور کیسے ہوا کہ انہیں انتی سخت سزا مل رہی ہے،  خاندان کے بڑے  اپنے چھوٹوں کی اتنی چھوٹی سی بات بھی معاف نہ کر پاتے ہیں۔ ابھی پہلا گناہ ہی معاف نہ ہو پایا تھا کہ سچے عشق کی ماری اس ناری نے اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ان ناروا پابندیوں کو ہوا میں اڑاتے نجانے کہاں سے اور کیسے میرا سکول ایڈریس لے اپنے نادان محبوب کے نام دوسرا محبت نامہ لکھ بھیجا۔ 

”نواز چاند! چاہو تو میرا یہ خط بھی پھاڑ دینا لیکن خدا را مجھے خود سے جدا نہ کرنا۔ میں تم سے پیار نہیں، عشق کرتی ہوں عشق اور عشق زندگی ہے۔ مجھے امید ہے کہ تمہیں اب سمجھ آچکی ہو گی کہ میں نے تمہیں تحفہ میں رومال کیوں دیا اور تمہاری خاطر پٹی کیوں تھی؟  پھوپھو سلمی نے ہی کیدو چچا بن، ہمارے پیار بھرے دلوں کے ملن پہ قدغن کیوں لگا رکھی ہے؟میرا یہ گماں اگر صحیح ہے تو میرے پیار پہ یقین رکھنا، تم ہی میرے من مندر کے دیوتا، میری پہلی پہلی اور آخری محبت ہو۔ میں جنم جنم سے تمہاری تھی، تمہاری ہوں اور تمہاری ہی رہوں گی۔ موت بھی ہمیں اک دوجے سے جدا نہ کر پائے گی۔ میں آپ کے من میں اپنے پیار کی جوت جگاتی رہوں گی تاآنکہ تمہیں میرے سچے پیار پہ اعتبار آجائے۔ میری آپ سے اک ہی گزارش ہے خوب دل لگا کے پڑھو،محنت کرواور جلد از جلد کچھ بن، مجھے اپنا لو ورنہ میں جی نہ پاؤں گی۔بچپن سے نکل، میں لڑکپن میں داخل جوانی کی حدود کو چھوتے واقعی پہلے سا بچہ نہ رہا تھا۔ میٹرک کورس میں شامل میرتقی میر، مرزا غالب  و آتش کی غزلیات میرے کورے من میں آتش عشق کی چنگاری سلگا چکی تھیں۔نعیمہ کے محبت نامہ نے اسے ہوا دے شعلہ بنا، بھڑکا دیاتھا۔ میری رومانوی حس لاشعور سے شعور میں آگئی۔ نعیمہ کی پیار بھری رومانوی باتیں یاد آنے، تڑپانے لگی تھیں۔محب صادق کی سچی تڑپ نے اپنے محبو ب کو بھی تڑپادیا تھا۔تڑپنا بھی ہمیں آتاہے، تڑپانا بھی آتا ہے، نعیمہ سچ ہی کہا کرتی تھی۔ آتش عشق کی چنگاری سلگی تو کس وقت اور کہاں؟ محبوب پاس نہ تھا، اسے دیکھنے ملنے کے حالات نہ تھے۔ تخیل ہی تخیل میں نعیمہ کو اپنے سامنے پاتا، نظریں اک دوجے کی نظروں میں پیوست پیغام محبت دیے جاتی تھیں۔  محبت کا کیوپڈ اپنا کام کر گیا،نعیمہ کے سبھی سوالوں کا جواب مل گیا میں اس کی عدم موجودگی میں ہی تخیلاتی، تصوراتی محبت کر بیٹھا تھا۔ ہماری رومانوی حس، پیاس  اک دوجے سے دور رہ  کر بھی خوب بھڑک چمک اٹھی تھی۔ صحیح معنوں میں کتابی رومانوی محبت پروان چڑھ رہی تھی۔ محبت ناموں کے لیے نعیمہ نے اپنی سہیلی کا ایڈریس لکھ بھیجا تھا۔ 

میرے نام آئے نعیمہ کے محبت ناموں میں جھلکتا ، محبت کے جام چھلکاتا رومانوی سرور میرے رومانوی من کو اپنی سچی محبت کے نور سے منور، مسرور و مخمور کرتا رہا۔ نعیمہ کے محبت ناموں کا جواب میں مشاہیر کے کلام سے مرقع و مرصع رومانوی اشعار صورت دیتا، کتابی محبت پروان چڑھتی رہی۔ ہمارے یہ محبت نامے علمی ادبی گھرانوں کے دو نونہلان کی سچی پاکیزہ محبت، کتابی محب کے مظہر و امین تھے۔ آتش عشق کی سوزش سے ہم دونوں جل، کندن ہو گئے تھے۔ بڑی ہونے کے ناطہ اپنے محبوب کو دل لگا کر پڑھنے اور کچھ بن کے اپنا لینے کی راہ نعیمہ دکھاتی رہی۔ محبت ہوجانے کے بعد جدائی کا دوسرا طویل ترین سال بھی ختم ہو رہا تھا۔ اپنی محبوبہ نعیمہ کی گاؤں آنے کی نہ صرف امید بندھی بلکہ نوید بھی ملی کہ ان کا اس بار گرمیوں کی چھٹیوں میں آنا ٹھہر چکا ہے۔ہمارے سچے من میں انگڑائی لیتی رہی کہ سچی محبت میں پہلی پہلی بار چوری چھپے ہی سہی اپنی شمع محبت کو محبت بھری آنکھ دیکھ، اپنی رومانوی پیاسی نظروں کی پیاس بجھ پائے گی۔آتش فراق میں جلتے  من کو بھی قرار اور ہر طرف پیار ہی پیار کی بہار سی بہار ہو گی۔ میرا غنچہ دل بھی کھل کے خوشنما پھول کا روپ دھار لے گا  لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ میں اتنی چھوٹی عمر میں سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ قدرت کے ستم ایسے ہوتے ہیں۔ 

”جان نعیمہ  نواز! ہماری سچی محبت پہ مشکل گھڑی آن پڑی ہے۔ میرے والدین یہاں میرا کسی سے بیاہ رچانے، مجھے تم سے ہمیشہ کے لیے وداع کرنے آئے ہیں۔وہ میرے لیے آئے رشتوں میں سے کسی کا انتخاب کرتے، انہی چھٹیوں کے دوران یہاں گاؤں ہی سے، مجھے بیاہ وداع کر دینا چاہتے ہیں۔ میں یہ ہر گز ہونے نہ دوں گی۔ مر سکتی ہوں، بے وفائی کرتے تم بن جی نہ سکوں گی۔ تم آگے بڑھو، مجھے اپنا  لو، میں تمہارے ساتھ ہوں۔ تم اپنے والدین کو ہمارے ہاں رشتہ لینے کے لیے بجھوا دو۔ اپنے والدین سے ہاں میں خود کروا لوں گی۔ ہم جنم جنم کے ساتھی، اک ساتھ جئیں مریں گے۔“ گاؤں پہنچتے ہی نعیمہ نے خادمہ خاص کے ہاتھ محبت نامہ بجھوایا۔ بصد شوق و اشتیاق کھوالا، چوما، آنکھوں سے لگایا۔ پڑھنا شروع کیا ہی تھا کہ شدت غم سے لڑکھڑا گیا۔ ایسے محسوس ہوا جیسے دل نے دھڑکنا ہی چھوڑ دیا ہو۔ دماغ شل، بالکل ماؤف ہو گیا۔ یہ کیا حادثہ ہوا؟ یہ محبت نامہ ہے یا قیامت نامہ۔ مجھے اپنے قدموں تلے زمین سرکتی محسوس ہوئی۔کانپتے ہاتھوں تھامے میں رقعہ پڑھتا گیا۔ میں کم عمر، اپنے والدین پہ کامل انحصار کرنے والا، فطری شرم و حیا کا مارا، اپنے والدین کے رعب و دبدبہ سے ڈرتا اپنی زبان تک نہ کھول پاتا تھا۔ سخت گیر، رجعت پسند کٹر مذہبی افغان گھرانے میں تو بڑے بڑے بھی اپنے بڑوں کے سامنے زبان وا نہ کر پاتے تھے چہ جائیکہ چودہ پندرہ سالہ بچہ میٹرک کے امتحان سے فارغ ہوتے ہی کٹر افغان گھرانے میں اپنی شادی اور وہ بھی اپنی پسند کی، کا مطالبہ کر دے۔ غنچہ دل ابھی کھل، محبوب اک بار بھی مل  نہ پایا تھا کہ غنچہ دل کھلنے سے پہلے ہی مسلا اورملنے سے پہلے ہی ہمیشہ کی جدائی کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ میٹرک کے امتحان سے فارغ ہوتے ہی بہت بڑا امتحان درپیش، تن من پہ بجلی آن گری تھی۔ کچھ کہہ بھی نہ سکتا، چپ رہ بھی نہ سکتا تھا۔ گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل کا معاملہ آن پڑا تھا۔         مشرقی گھرانوں میں عموماً اور کٹر مذہبی گھرانے میں خصوصاً لڑکی کو جوانی کی حدود میں داخل ہوتے ہی بیاہ دیا جاتا ہے۔ لڑکی کا رشتہ دیکھنے کی دوڑ تو لڑکی کے پیدا ہوتے ہی شروع ہو جاتی ہے اور اس کے جوان ہونے سے پیشتر ہی کوئی فیصلہ بھی کر لیا جاتا ہے۔ نعیمہ اب مکمل جوان ہو چکی تھی۔ اس کے لیے دیکھے گئے رشتوں کی دوڑ کسی نتیجہ پہ پہنچنے والی تھی اور اس کا محبوب یعنی میں اب تک اس دوڑ سے ہی باہر تھا۔ اس دوڑ میں شمولیت کی درخواست مجھے Through Proper Channel  اپنے والدین کے ذریعہ اس دوڑ کے منصفین، نعیمہ کے والدین تک بھجوانا تھی اور میں چھوٹا ہی اتنا تھا کہ اپنے والدین سے اپنی شادی کا کہہ ہی نہ پاتا تھا۔ 

”امی جان! سنا ہے نعیمہ باجی کی شادی کی باتیں ہو رہی ہیں۔ وہ پڑھی لکھی سمجھ دار اور خوبصورت لڑکی ہے۔  کیوں نہ ہم اس کا رشتہ لے لیں۔“ اپنے ہوش و حواس یکجا کرتے، میں بڑی ہمت حوصلہ اور جرات سے اپنی پیار کرنے والی ماں سے لاڈ و پیار کرتے باتوں باتوں میں فقط اتنا ہی کہہ پایا تھا۔ 

”نہیں بیٹے! ابھی تمہارے بھائی نے ایف اے کیا ہے اسے تو کم از کم چھ سال مزید پڑھ لکھ کر آئی سی ایم اے کرنے کے بعد باروزگار ہو کے ہی شادی کرنا ہے۔ اس وقت تک کسی کی بیٹی کو انتظارکرنے کا کہنا انتہائی معیوب ہے۔ نعیمہ تو اب بھی بھرپور جوان ہے۔ تمہارے بھائی کے تعلیم پورا کرتے کرتے تو اس کی شادی کی عمر بھی ڈھل چکی ہوگی۔“ میں کہنا کیا چاہتا تھا اور میری ماں نے کیا سمجھ لیا تھا۔ ماں تو مجھ سے چار سال بڑ ے بھائی کے لیے بھی نعیمہ کی شادی کی عمر ڈھل جانے کا کہہ رہی تھی تو میرے ساتھ شادی کے لیے کب اور کیونکر مانتیں! مجھے مکمل احساس تو ہو گیا پر میرا دل ماننے کا نہ تھا۔ 

”امی جان! میں تو اتنا نہ پڑھوں گا،میٹرک کر لیا ہے، اسی بنیاد پر کسی سکول میں ٹیچر بن جاؤں گا یا ایئر فورس میں ایئرمین بھرتی ہو کر اپنے بوڑھے ماں باپ کا سہارا بن، آپ کی خدمت  کروں گا۔نعیمہ اچھی لڑکی ہے اسے اپنی بہو بنا لیں وہ بھی میرے ساتھ آپ کی خدمت کرے گی۔انشاء اللہ!۔۔۔۔۔“ میرے سچے پیار اور اجلے من نے ہار نہ مانی۔ اپنی محبت نعیمہ کے دلائے گئے حوصلہ، ہمت، جرات سے کام لیتے ماں سے کہہ ہی دیا۔ 

”توبہ توبہ! قیامت کے آثار ہیں۔ برخوردار پہلے جوان تو ہو لو، پڑھ لکھ لو، برسرروزگار ہو جاؤ تب کہیں جا کر ایسی سوچیں سوچنا۔ ذرا اپنی عمر دیکھو اور اپنے کا م! کچھ شرم کرو شرم! کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔۔۔ کل کا بچہ، چلا ہے جواں سال لڑکی سے عشق فرمانے اور شادی رچانے۔ پھر ایسی ویسی بات کی تو وہ پٹائی کروں اور تمہارے باپ سے کراؤں گی کہ نانی یاد آجائے، عشق کا سارا نشہ اتر جائے گا۔ بہتر یہی ہے ایسی سوچیں سوچ، خود ذلیل و رسوا ہو نہ ہی اس شریف زادی کو رسوا کرو۔ تم نے ابھی پڑھنا ہے، تمہاری منزل دور ہے  بہت دور۔ اس بے وقت فضول راگنی پہ اپنا قیمتی وقت اور اپنا درخشاں مستقبل قربان نہ کرو۔ یہ تمہیں میری نصیحت ہی نہیں، حکم بھی ہے۔“ میرے منہ کی بات میری ماں نے چھین لی تھی اور میں بھیگی بلی بنا، چپ سادھ کے رہ گیا، اپنی ماں کے احترام میں کچھ کہہ نہ سکا۔ میری نحیف و کمزور نابالغ آواز بڑوں کی شان و شوکت، جاہ و دبدبہ تلے دب کے رہ گئی۔ طوطی کی آواز نقار خانے میں کون سنتا ہے! یہاں تو طوطی کو بولنے ہی نہ دیا گیا تھا۔ مجھے نابالغ چھوٹا، نادان قرار دے، ڈانٹ ڈپٹ،منظوری کی پہلی منزل، ماں نے ہی ڈراپ کر دیا۔ 

چند  روز بعد میٹرک کا رزلٹ  بھی آگیا۔ میں نے بورڈ میں اعلیٰ پوزیشن لے، نیشنل ٹیلنٹ سکالرشپ جیتنے کی  ہیٹ ٹرک کر لی۔ گھر بھر میں خوشی کے شادیانے بج اٹھے تھے، نعیمہ بھی اسی خوشی سے کھل اٹھی تھی۔ خوش کیوں نہ ہوتی! اسی نے تو ہر دم مجھے دل لگا کر پڑھنے کی تاکید کی تھی تاکہ بڑا بن، اسے پا سکوں۔ بڑا بننے کیلیے وقت درکار تھا، یہی وقت ہی تو ہمیں دیا نہ جارہا تھا۔ مجھے یقین ہونے لگا کہ میں اپنی زندگی کا پہلا پہلا پیار پروان چڑھنے سے پہلے ہی ہار رہا ہوں۔مجھے اپنے پیار کی ہار منظور  نہ تھی۔ میں نے بڑا بننے کے لیے مزید پڑھنے کی بجائے میٹرک رزلٹ کی بنیاد پہ ہی پرائمری سکول ٹیچر بن یا ایئر مین بھرتی ہو، جلد از جلد برسرروزگار ہونے، اپنے پیار کو پانے کا تہیہ کر لیا۔ 

”میں تمہیں اپنا شاندار مستقبل اک عام سی لڑکی پہ قربان نہ کرنے دوں گی۔ تمہیں پڑھنا، آگے بڑھنا ہے۔ تم ہی تو اپنے بوڑھے والدین کی آس امید اور سہارا ہو۔ اک ہماری ہی نہیں، سارے خاندان کی تم سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ تمہاری عمر ابھی سے عشق اور شادی کے جھنجھٹ میں پڑنے کی نہیں۔ تمہیں بہت ہی پڑھنا اور اسی طرح اچھے سے اچھے رزلٹ دکھاتے، بتدریج ترقی کی منازل طے کرتے جانا ہے۔کچھ ایسا کر،دکھانا ہے کہ ہمارا سر فخر  سے بلند ہوا۔“ 

”ماں! مجھے میری زندگی کا پہلا پہلا پیار دلوا دو۔ میں وعدہ کرتا ہوں اپنا پیارے پانے کے لیے میں آپ کی ہر آس امید پہ پورا اتروں گا۔ ملازمت کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ امتحان دیتا، آپ کی خواہش و منشا مطابق ترقی کی سبھی منازل طے کرتا، آپ سب کے لیے باعث صد افتخار بنوں گا۔“ 

”بیٹے! یہ ناممکن ہے، شادی کے جھنجھٹ میں پڑ کر تم اپنی پڑھائی سے انصاف نہ کر سکو گے۔ گھر گر ہستی میں کولہو کے بیل کی طرح جت جاؤ گے تو وہیں کے ہو کر رہ جاؤگے۔ نعیمہ کو پانے کا خیال خام دل سے نکال دو۔ مکمل یک سوئی و انہماک سے پڑھو اور صرف پڑھو۔ تمہاری عمر پڑھنے کی ہے ان فضول واہیات مشاغل میں پڑنے کی نہیں۔“

”ماں۔۔۔۔۔!“ ماں سے میری بات سننا بھی گوارا نہ ہوا۔ ڈانٹ ڈپٹ، چپ کرا دیا۔ 

”بس اس سے آگے میں کچھ نہ سنوں گی۔ اب یہ میرا حکم ہے، مشورہ نہیں۔“ اپنی ماں کا ہر حکم ایمان جانتے، اس پہ بے چو ں و چرا عمل کرنے والے سعادت مند بیٹے کی مانند میرے لیے چپ رہنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا سو چپ ہو رہا۔ ماں سے کچھ کہہ نہ سکا تو اور کسی سے کہتا تو کیا کہتا؟ ماں  ہی تو میری ہر جائز ناجائز مانتی، ہر کسی سے منواتی رہی ہے لیکن اب نجانے کیوں وہ بے بس ، اپنے لاڈلے کو بھی بے بس دیکھ تڑپ نہ اٹھی تھی۔ میری ماں کی ممتا کو نجانے کیا ہو گیا تھا! میں کچھ سمجھ ہی نہ پاتا تھا۔ میٹرک امتحان میں شاندار کامیابی بھی ماں کو بیٹے کی خواہش پوری کرنے پہ قائل کرنے کی بجائے اپنے بیٹے کے شاندار روشن مستقبل کی راہ میں ہر رکاوٹ سختی سے عبور کرنے پہ مائل کر گئی۔ ایسی سوچ بھی اپنے من میں لانے سے ماں نے صاف صاف لفظوں میں سختی سے منع کر دیا۔سوچوں پہ بھلا کب کسی کا اختیار ہے؟ میر بے لگام سوچوں نے میرا جینا دو بھر کر دیا تھا۔ گھٹن اور درد و غم اتنا بڑھا کہ الاماں! میٹرک بورڈ کے امتحان میں میری شاندار کامیابی ہی میری راہ کی دیوار بن گئی تھی۔ لو گ اور عزیز و اقارب خوشی سے مجھے مبارکباد دیتے تو میری آنکھیں چھلک پڑتیں، ظالم سماج اسے خوشی کے آنسوؤں پہ محمول کرتا، میں انہیں کیا کہتا! چپ ہو رہا، سب حالات پہ چھوڑ، خدا سے دعا کا رشتہ جوڑ لیا۔ 

”رب حقیقی! رب مجازی میری ماں کو مہربان بنا، میری مشکل آسان کر دے۔ ماں مان گئی تو سب مان جائیں گے۔ خدا را نعیمہ کو میری بنا، ہمار املن کرا دے۔“ادھر میں اپنی ماں کو مناتا، مجسم دعا بنا تھا تو ادھر نعیمہ بھی سر دھڑ کی بازی لگائی چکی تھی۔ 

”امی جان!  مائیں تو اپنی بیٹی کو لاڈ و پیار سے پالتی، پوستی جوان کرتی ہیں لیکن یہی بیٹیاں جوان ہوتے ہی بوجھ کیوں معلوم ہونے لگتی ہیں کہ ان سے جلد از جلد پیچھا چھڑانے کی کوششیں تیز ترہوجاتی ہیں۔ اپنی لاڈلی بیٹی کا اپنے گھر سے دربدر کرنا ہی مقدر ٹھہرا تو اس معصوم ہستی کی خواہش، تمنا کا ہی ذرا احساس کیا ہوتا!

”اے ایمان والو! تمہیں حلال نہیں کہ زبردستی عورتوں کو ورثے میں لے بیٹھو۔“یہ میں نہیں کہہ رہی، سورۃ نساء آیت19میں ارشاد ربانی ہورہا ہے۔ امی جان! میں آپ سے کہہ نالہ و فریاد کر چکی ہوں کہ میں شادی کروں گی تو اپنے پیار نیاز سے۔ وہ بھی دل و جان سے مجھے چاہتا، تیزی سے ترقی کی منازل طے کرتا، مجھے پالینا چاہتا ہے۔ خدا را اسے بڑا ہونے اور بڑا بننے کے لیے تھوڑا سا وقت دے دیں، یوں مہاظلم نہ کریں۔مجھے زنجیروں میں جکڑ دیں، میری زبان کاٹ، پھینک دیں، میری رگوں میں دوڑتا اپنے خون کا ہر قطرہ بھی نچوڑلیں، میں اپنے پیار سے باز نہ آؤں گی۔ یہ میرا حق ہے، وہی حق ہے جسے استعمال کرتے میرے باپ نے۔۔۔امی جان!آپ سے شادی،    اپنی محبت کی شادی کی تھی۔ خدا را کچھ کریں ورنہ آپ کی لاڈلی بیٹی خودکشی کر نہ سکی تو گھٹ گھٹ کے مر، ضرور جائے گی۔“ قدامت پسند افغان گھرانے کی دوشیزہ نعیمہ مجھ سے طاقتور نکلی، اس کے سچے جذبہ عشق اور دل بے تاب نے ہار نہ مانی۔ رو رو کے اپنی مان سے فریاد کرتی، دہائی پہ دہائی دیتی رہی۔ 

”میری لاڈلی! جان کی خیر چاہتی ہو تو سخت گیر رسم و رواج سے ٹکر لینے کی کوشش نہ کرنا ہمارے بڑے، بڑے ظالم ہیں۔ انہیں اپنی اولاد سے زیادہ اپنی جھوٹی شان و شوکت، آن بان اور ظالمانہ رسم و رواج عزیز تر ہیں، کہیں ان کی حکم عدولی سے ان کے اندھے انتقام کا نشانہ بن، اپنی جان سے ہی نہ چلی جانا۔“

    ”جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے

    یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جان کی تو بات نہیں۔۔۔۔“        ماں کی دھمکی پہ نعیمہ بے ساختہ چلا اٹھی۔ 

”بیٹی! مجھ میں اتنی جرات، ہمت کہاں کہ اپنے مجازی خدا کی مرضی کے خلاف کوئی بات کر سکوں، اپنی لاڈلی پہ ہی زور چلتا ہے اسی لیے تمہیں منا، سمجھا رہی ہوں۔خدا کے لیے مان جاؤ، مجھ پہ ترس کھاؤ۔ میں ممتا کی ماری، بے چاری جاؤں تو جاؤں کہاں۔۔۔۔؟“ بیٹی کا سچے پیار میں جان بھی ہارجانے کے عزم، ارادہ کا سن، ماں کی ممتا تڑپ اٹھی۔رو رو، منت سماجت کرتے، اپنی لاڈلی کو مناتی رہی۔ نعیمہ نے بالآخر محسوس کر لیا کہ وہ اپنی ماں میں انتی ہمت و جرات پیدا نہ کر پائے گی تو اس نے خاندان کی سب سے بڑی ہستی بوُاجی کے پاؤں پکڑلیے۔

”بوُا جی! مجھے سمجھ نہیں آتی میرے والدین کو میری شادی کی آخر اتنی جلدی کیا ہے؟ میں کہیں بھاگی تو نہیں جارہی؟ نیاز مجھے ٹوٹ کر چاہتا ہے۔ ہونہار  بروا کے چکنے چکنے پات مصداق وہ بچپن ہی سے شاندار تعلیمی ریکارڈ قائم کرتے کچھ بن، جلد سے جلد مجھے اپنا لینا چاہتا ہے۔ اس کے شاندار تعلیمی کیریئر  کے لیے بھی اشد ضروری ہے کہ اس سے اس کا پیار چھین، اسے اتنے بڑے صدمہ سے دوچار نہ کیا جائے جس سے وہ جی سکے نہ مر، عمر بھر یونہی تڑپتا، سسکتا رہے۔ 

بواجی! آپ کو بھی بخوبی خبرہے کہ ہمارے سچے مذہب اسلام میں لڑکی کی اجازت کے بغیر اس کی شادی کی کوئی شرعی حیثیت نہیں۔ میں اپنے پیار کے علاوہ کسی اور شادی کے لیے ہاں کہنے کی نہیں۔ خدارا اپنے بھائی، میرے ظالم باپ کو میری فوری شادی سے منع کرتے، نیاز کو بڑا ہونے اور بڑا بننے کے لیے تھوڑا سا وقت دلوادو۔ ہم دونوں زندگی بھر آپ کی خدمت، اپنا فرض سمجھ، کرتے رہیں گے۔ بوا جی! مجھے خدا کے بعد آپ ہی سے انصاف اور مدد کی امید ہے، خدارامجھے مایوس نہ کرنا۔ اس سخت گیر افغان گھرانے میں آپ ہی وہ واحد ہستی ہو جس نے اپنے بڑوں کو ضد سے منا، اپنی پسند کی شادی کی تھی۔ اب آپ میری پسند کی شادی کی حمایتی مددگار بن، عورت کی پسند کی شادی، حق سچ کی آواز بن جائیں۔“بواجی نے واقعی مایوس نہ کیا فوراً اپنے بھائی سے ملاقات، بات کی۔

”باجی! آپ نیاز کے والدین سے مل، اس شادی کے لیے ان کی ”ہاں“ لے لیں اور اس ہاں کی ضامن آپ بن جائیں تو ہم نیاز کے بڑا ہونے اور بڑا بننے کاانتظار لیں گے۔ نیاز ترقی کی منازل تیزی سے طے کرتا ہمیں بھی بہت پسند ہے پر ڈر ہے تو اس کے والدین کا کہ اس کے پڑھ لکھ کر بڑا بننے پہ کہیں وہ اپنی عمر سے بڑی نعیمہ رشتہ لینے سے انکار نہ کر دیں۔ہم سے وہ نعیمہ کا رشتہ لینے کے سوالی بنیں تو کچھ بات ہے، صرف اک معصوم نابالغ بچے کی بات کیسے مان جائیں؟“ بھائی نے اپنی بہن کی لاج رکھ لی  اور مشروط رضامندی ظاہر کر دی۔ بوا جی نے اپنے بھائی سے ہاں کہلوا، کمال کا کام کیا تھا۔ پچاس فیصد کامیابی ہو چکی تھی۔ اس آدھی کامیابی سے ہی ہم دونوں کے پثرمردہ چہرے خوشی سے کھل اٹھے تھے۔  باقی آدھی کامیابی میرے ماں باپ کی ہاں سے مشروط تھی لیکن میرے ماں باپ کا رویہ انتہائی مایوس کن تھا۔ 

”ہماری اچھی بہنا! نعیمہ اچھی بیٹی ہے لیکن اس کی نواز سے شادی کی تجویز شادی نہیں، ان دونوں کی بربادی ہے۔ہمارا شاہین صفت ہونہار بیٹا بلندیوں کی طرف گامزن ہے ۔ ہم اس کی کسی ایسی ویسی خوہش کی حوصلہ افزائی نہ کریں گے جس سے اس کی طاقت پرواز میں کمی آتی ہو۔ خدا کے لیے  اس کے پروں پہ شادی اور اک دوجے کی چاہت کا بے وقت بو جھ لاد، اسے زمین پر گرنے سے بچالیں۔ اسے بلند اور بلند پرواز کرنے دیں یہ آپ سب کا ہم پہ اورہمارے بیٹے پہ احسان ہو گا۔ نعیمہ بالغ اور جوان ہے۔ نیاز کے فضول انتظار میں اسے بوڑھا ہونے دینا کسی طور مناسب نہ ہے۔ ہمارے ہاں لڑکی کی شادی کی یہی عمر ہوا کرتی ہے۔آٹھ دس سال بعد ہمارا بیٹا پڑھ لکھ کر باروزگار ہو گا تب تک تو اس کی شادی کی عمر ہی گزر چکی ہو گی۔ قرین مصلحت یہی ہے کہ ان دونں کے حال پہ رحم کرتے ان دونوں کا مستقبل تباہ نہ کیا جائے۔ ہماری طرف سے اس شادی کیلیے آج بھی دست بستہ معذرت ہے اور کل بھی یہی ہوگا۔ بہتر ہے نعیمہ بیٹی کے لیے آئے، کھاتے پیتے گھرانے کے جواں سال پائلٹ آفیسر تبریز کا رشتہ انتہائی اچھا ہے۔نونقد نہ تیرہ ادھار۔ ہاتھ آیا اچھا رشتہ جانے نہ دیا جائے، نیاز کی موہوم آس امید سے یہ کہیں بہتر ہے۔“بڑی بوا جی نے میرے ماں باپ سے نعیمہ کے رشتے کی بات کی تو ان دونوں نے یک زباں ہو، رشتہ لینے سے انکار کے ساتھ ساتھ دوسرے گھر کی راہ بھی دکھا دی۔ 

:مصنف: محمد فرقان چوہدری کسانہ ایڈووکیٹ

            (جاری ہے...............................)

ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی