یوم شہدائے جموں: مختصر جائزہ Jammu Martyrs' Day: A Brief Review

     یوم شہدائے جموں: مختصر جائزہ 

Jammu Martyrs' Day: A Brief Review

یوم شہدائے جموں مختصر جائزہ
 

تاریخ کشمیر ان گنت المناک واقعات اور حادثات پر مبنی ہے۔ افغانوں، سکھوں اور ڈوگروں کے بے انتہا مظالم کے تسلسل میں 1947سے لے کرکشمیری عوام بھارتی ناجائز تسلط،ظلم و جبر،انسانی حقوق کی پامالیوں اور ریاستی دہشت گردی کے خلاف بر سر پیکار ہیں۔تحریک آزادی کی ابتداء سے اندازاً چھ لاکھ سے زائد افراد نے اپنی جانوں کا قیمتی نذرانہ دے کر جہاں ایک طرف تحریک آزادی کو جلا بخشی ہے وہاں دوسری طرف بھارت کے سیکولر ازم اور جمہوریت کے جھوٹے دعوں کو دنیا پر آشکا رکیا ہے۔06نومبر کو ہر سال یوم شہدائے جموں کے طور پر مناکر شہدائے جموں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے شہدا کے مشن کی تکمیل کااعادہ کیا جاتا ہے۔

مسلمانوں اور ہندوں کے درمیان حکومتی ایماء پر 3نومبر 1931ء کوپہلے فرقہ وارانہ تصادم نے جنم لیا۔ جس میں تقریباً 7مسلمان شہید ہوئے۔ (بحوالہ چوہدری غلام عباس مرحوم کی تصنیف"کشمکش" صفحہ81-82)۔3جون 1947ء کے تقسیم ہند کے منصوبہ کے منظر عام پر آنے کے بعد سے سیالکوٹ اور جموں کے دیگر متصلہ علاقوں سے ہجرت کر کہ آنے والے ہندوں کو ایک منظم سازش کے تحت آباد کر نا شروع کر دیا گیا تھا۔اس گھناونی سازش کا اندازہ 1941میں ہونے والی مردم شماری میں صوبہ جموں کے مسلمانوں اور ہندوں کی آبادی کے تناسب کا موجودہ تناسب سے موازنہ کر کہ بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ماہ اکتوبر اور نومبر 1947میں جموں کے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلے جانے کے تاریخی پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس گھناونے عمل میں نا صرف جموں کے انتہا پسند ہندوں کی تنظیم RSS اور جنک سنگھ کے تربیت یافتہ افراد بلکہ ڈوگرہ فوج،پٹیالہ،فرید کوٹ اورنابھہ سے آئے ہوئے مسلح دستے اور باقاعدہ بھارتی افواج شامل تھیں۔لارڈ برڈ وڈ کی تصنیف  Two Nation and Kashmir کے مطابق آر ایس ایس، اکامی سکھ اور انڈین نیشن آرمی کے لوگ اکتوبر کے سارے ماہ کے دوران انڈیا سے بڑی تعداد میں جموں داخل ہوتے رہے اور بالا آخر 05اور06نومبر کو جموں کے مسلمانوں سے بھری بے شمارگاڑیوں میں سوار افراد کا اجتماعی قتل عام کیا گیا۔مڈ اکتوبر اور نومبر کے پہلے ہفتے میں جموں، اودھم پور، کپواڑہ اور ریاسی کے اضلاع میں مسلمانوں پر بر پا ہونے والے قیامت کے مناظر سے پروفیسر نذیر احمد تشنہ نے اپنی تصنیف تاریخ کشمیر کے صفحہ568پر کلکتہ کے روزنامہStatesmanکے ایڈیٹر آئن سٹیفن کے حوالے سے لکھا ہے کہ تقریباً 5لاکھ مسلمان آبادی کا صفایاکیا گیا۔لندن ٹائمز نے اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ"اس سے صوبہ جموں کے مسلمانوں کی آبادی2لاکھ کم ہو گئی۔ ہزاروں کو قتل کیا گیا۔ شیخ محمد عبد اللہ نے نومبر1947ء  کے آغاز میں جموں میں ہندوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں نے اس علاقہ کو مسلمانوں سے خالی کر کے رکھ دیا ہے۔ (بحوالہ پروفیسر نذیر احمد تشنہ صفحہ590)۔

اکتوبر،نومبر 1947 کے شروع کے دنوں میں ہونے والے اس قتل عام کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔لیکن سر زمین پاکستان پر قدم رکھنے کے شوق اور جذبے سے سر شار کتنے کشمیری مسلمانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دیے۔کتنے لوگوں کے خواب چکنا چور ہوئے۔کتنے افراد کو اپنی جائیدادیں اور گھر بار چھوڑ کر اپنی سر زمین کو خیر باد کہنا پڑا۔اس کا اندازہ ڈاکٹر اعجاز حسن کی تصنیف Kashmir Dispute An International Law perspective،معروف معاصرٹائمز آف لندن، معروف کشمیری رہنما چوہدری غلام عباس کی تصنیف ”کشمکش“، بشیر احمد قریشی مرحوم کی تصنیف ”قائد کشمیر“اور پروفیسر محمد سرور عباسی تصنیف ”کشمیری مسلمانوں کی جدوجہد“ آزادی سے بخوبی  لگایا جاسکتا ہے۔                    

نومبر 1947کے پہلے ہفتے کے دوران بالخصوص جموں اور ارد گرد کے علاقوں میں مسلمانوں پر سنگ پارٹی کے مسلح جو انوں،بھارتی اور ڈوگرہ افواج نے مظالم کی انتہا شروع کر دی۔سادہ لوح دیہادتیوں کو گھروں سے نکال کر ان کے مکانات کو آگ لگائی گئی۔ان کی جمع پونجی لوٹ لی گئی اور ان گنت افراد کو تہ تیغ کر دیا گیا۔ 5اور 6نومبر1947ء کو ظلم اور سفاکی کا یہ ڈرامہ اپنے عروج پر پہنچ گیا جب جموں شہر کے نہتے مسلمانوں کو اپنے گھروں سے نکال کر پولیس لائن کے احاطہ میں جمع کیا گیا۔نومبر کی سر د راتوں میں نیلے آسمان تلے،کھلے میدان میں بے بس عورتوں،بچوں،کمزور اور لاغر بوڑھوں،نڈر اور بے باک جذبہ آزادی سے سرشار مگر انجام سے بے خبر نوجوانوں پر کیا گزری۔۔۔۔۔ان تکالیف، ظلم و ستم اور آر ایس ایس کے مسلح درندوں کی درندگی کے مناظرکامکمل احاطہ تاریخ کے بس میں نہیں اور نہ ہی کسی تحریر میں ایسا دم ہو سکتا ہے جس کے ذریعے ان حقائق کا ادراک کیا جا سکے۔کہتے ہیں کہ آؤ دیکھا نہ تاؤ مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہائی گئیں! خواتین کو اغوا کیا گیا۔

6نومبر کو "یوم شہدائے جموں " کے طور پر منایاجاتا ہے جس کا بنیا دی مقصد ایک طرف تو لاکھوں شہدائے جموں کو خراج عقیدت پیش کر نا اور اس عہد اور نصب العین کی تجدید کرنا ہے جس کے پیش نظر جموں کے مسلمان دہشت گردی کا شکار ہوئے۔وہاں دوسری طرف ہندووں کے سیکولر ازم کے جھوٹے دعوں کو رد کرنا اور انکی وحشت و درندگی کو مہذب دنیا کے سامنے پیش کر نا ہے۔دنیا پر یہ واضح کر نا ہے کہ کشمیری عوام اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی  منظور شدہ قراردادوں اور بھارتی حکمرانوں کے عالمی بر ادری کے ساتھ کئے گئے وعدوں کے مطابق رائے شماری کے حصول کیلئے جدوجہد میں مصروف عمل ہیں۔  بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کی شائع کردہ رپورٹیں اور بین الاقوامی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا اس امر کی واضح نشاندہی کرتا ہے کہ 1947ء سے لے کر تا حال بھارتی فوج بد نام زمانہ  "ریاستی دہشت گردی "کی مرتکب ہو رہی ہے لیکن عالمی برداری اور بین الاقوامی طاقتیں حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بین الاقوامی بر ادری مفادات کی عینک کو اتارتے ہوئے حقائق سے پردہ پوشی نہ کرے اور حکومت پاکستان بین الاقوامی ماہرین کی خدمات حاصل کر کے جموں میں ہونے والے تاریخی قتل عام کے جرم کی پاداش میں بھارتی حکومت کو عالمی عدالت انصاف کے کٹہرے میں لائے۔

: محمد فرقان چوہدری کسانہ ایڈووکیٹ مصنف:

  ٭٭٭     

ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی